ترجمہ و ترتیب: محترمہ سیدہ نصرت نقوی
درج ذیل ناموں پر نظر ڈالیں!
لیسوتھو، باربادوس، کومور، موریس، نائورو، پالاؤ، پاپوا نیو گنی، سان مارینو، سینٹ کٹس اور نیوس، ساموآ، ساؤ ٹومے، سیشلز، سوازی لینڈ، ٹونگا، تووالو، وانواتو، ملاوی، کیپ وردے، جبوتی، بینن، بیلیز، اینٹیگوا باربودا، جزائر سلیمان، جزائر فارو، جزائر مارشل، موریتانی اور دیگر بہت سے ممالک۔۔۔
یہ ان ممالک کے نام ہیں جو 100 سال سے کم پرانے ہیں، جن کی آبادی 100,000 سے بھی کم ہے، اور یہ مکمل طور پر امریکہ کی گندی سیاستوں کے تحت منصوبہ بندی کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔ یہ تمام ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں اور ہر ایک کے پاس ایک ووٹ کا حق ہے!
1945 میں اقوام متحدہ کے قیام کے وقت صرف 51 ممالک اس کے رکن تھے، لیکن اس کے بعد امریکہ کی سرپرستی میں کئی ممالک کو "آزاد" کروا کر اقوام متحدہ کے رکن بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اب اس کے تقریباً 200 رکن ممالک ہو چکے ہیں۔
اب آپ اچانک سنتے ہیں کہ 150 سے زائد ممالک اقوام متحدہ میں ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں! یا کہتے ہیں کہ عالمی برادری ایران کے جوہری پروگرام پر فکرمند ہے!
لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ "عالمی برادری" اصل میں ہے کیا؟ اور کیسے تشکیل دی گئی؟
کوئی یہ نہیں کہتا کہ ان ممالک کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل ہے اور شاید وہ جانتے بھی نہ ہوں کہ ایران دنیا کے نقشے پر کہاں واقع ہے!
یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 10 ممالک کی مجموعی آبادی ایران کے ایک عام شہر کی آبادی کے برابر بھی نہیں۔
مثلاً:
نائورو کی آبادی 11,000 سے کم ہے۔
تووالو کی آبادی 12,000 سے کم ہے۔
پالاؤ کی آبادی تقریباً 18,000 ہے۔
126 اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی مجموعی آبادی صرف 70 ملین (7 کروڑ) افراد پر مشتمل ہے، جو مکمل طور پر امریکہ کے غلام اور اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ان تمام ممالک کا مجموعی رقبہ ایران کے برابر بھی نہیں!
اب آپ سمجھ گئے کہ کون سی دنیا ہمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دیتی ہے؟!
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ملک حقیقت میں خودمختار نہیں، بلکہ یہ سب امریکہ کے کنٹرول میں ہیں۔
مثلاً، یمن کے انصار اللہ کو امریکی اور برطانوی بحری جہازوں پر حملے کے معاملے میں بہت حساسیت ہے۔ پچھلے سال، ایک امریکی بحری جہاز "باربادوس" کے جھنڈے تلے بحیرہ احمر سے گزر رہا تھا، جسے یمنی مزاحمت نے نشانہ بنایا۔
بعد میں امریکی حکام نے کھل کر تسلیم کیا کہ یہ امریکہ کا جہاز تھا۔
حقیقت کیا ہے؟
آخر میں، یمن کے معاملے کا تجزیہ کرتے ہوئے، پہلے عالمی منظرنامے کو سمجھنا ضروری ہے۔
اگر ہم چھوٹی تفصیلات میں الجھ جائیں تو اصل حقیقت اور اصول پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ ایک وجودی جنگ ہے۔ یعنی اس میں یا تو ایک فریق کو مکمل طور پر ختم ہونا ہے، یا اسے فوجی طور پر غیر مؤثر کر دیا جانا ہے۔
جنگ بندی، مذاکرات، اور دیگر باتیں صرف وقت گزارنے کے بہانے ہیں۔
وجودی جنگ میں معاشی یا انسانی نقصانات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اصل مقصد یہ ہے کہ جو فریق آخر تک کھڑا رہے، وہی فاتح ہوگا۔
اصل جنگ کس سے ہے؟
اس وقت ایران اور اس کے اتحادیوں کی جنگ غاصب اسرائیل سے نہیں، بلکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں سے ہے۔
غاصب اسرائیل اتنا بڑا نہیں کہ عالمی جنگ کے فریق کے طور پر خود کو منوا سکے۔ خود اسرائیلی حکام بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ اگر امریکہ ان کی مدد نہ کرتا، تو وہ اندرونی طور پر ہی ٹوٹ چکے ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں رہبر انقلاب اسلامی کی تقریروں میں اسرائیل پر زیادہ زور نہیں دیا جا رہا، بلکہ براہِ راست امریکہ کو للکارا جا رہا ہے۔
غاصب اسرائیل، جو کبھی امریکہ کا پالتو کتا تھا، اب اتنا بے وقعت ہو چکا ہے کہ اس کا ذکر بھی کم کر دیا گیا ہے۔
آپ کا تبصرہ